گلاب اور مسکراہٹ کا قرض
زندگی کے سفر میں ہم مختلف لوگوں سے ملتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے باغ میں کھلا ہوا تازہ گلاب—رنگوں سے بھرپور، خوشبو سے معطر، اور اپنی موجودگی سے ماحول کو خوشگوار بنانے والے۔ ان کے چہرے پر ہر لمحہ مسکراہٹ ہوتی ہے، جیسے وہ دنیا کو خوشیوں کا تحفہ دینے آئے ہوں۔ ان کے قریب رہ کر دل ہلکا ہو جاتا ہے، فکر کا بوجھ کم محسوس ہوتا ہے، اور زندگی کچھ دیر کے لیے آسان لگنے لگتی ہے۔
مگر افسوس، کبھی ہم اپنے لہجے کی سختی اور الفاظ کی تلخی سے اس گلاب کی تازگی چھین لیتے ہیں۔ ہمارے ایک تیز جملے، ایک بے پروا طنز، یا ایک غیر ضروری شکایت سے ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ مسکراہٹ جو ان کے چہرے کا سب سے خوبصورت حصہ تھی، آہستہ آہستہ غائب ہو جاتی ہے۔ جیسے گلاب کا پھول دھوپ کی شدت یا سردی کی سختی سے مرجھا جائے، ویسے ہی وہ شخص اندر سے بجھ جاتا ہے۔ رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، اور وہ روشنی جو کبھی دوسروں کے لیے امید تھی، مدھم ہو جاتی ہے۔
ایسے لوگ بظاہر خاموش ہو جاتے ہیں، مگر ان کا احساس اور ان کی خوشبو ارد گرد موجود رہتی ہے۔ آپ ان کو بھول بھی جائیں، مگر وہ یادیں، وہ چھوٹے چھوٹے پل، اور ان کی کہی ہوئی محبت بھری باتیں آپ کے دل کے قریب رہتی ہیں—بالکل گلاب کی خوشبو کی طرح، جو پھول کے مرجھانے کے بعد بھی فضا میں بسی رہتی ہے۔
ہم اکثر یہ نہیں سمجھ پاتے کہ کسی کی مسکراہٹ چھین لینا، اس کی زندگی سے ایک رنگ چرانے کے مترادف ہے۔ ایک سخت جملہ، جو شاید ہمارے لیے معمولی ہو، کسی کے لیے اندر تک چبھ جانے والا کانٹا بن سکتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کھلنے میں وقت لگتا ہے۔ ایک بیج کو پھول بننے میں دن، ہفتے، یا مہینے لگتے ہیں، لیکن مرجھانے کے لیے چند لمحے ہی کافی ہوتے ہیں۔
اس لیے، اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجیے۔ دیکھیں کہیں کوئی ایسا تازہ گلاب تو نہیں جو آپ کی لاپرواہی سے مرجھا جائے۔ کہیں کسی کا دل آپ کی جھڑکی یا طنز کی نظر تو نہیں ہو رہا۔ یہ سوچ کر بات کیجیے کہ آپ کے الفاظ کسی کے دل میں خوشبو بھی بسا سکتے ہیں اور زہر بھی گھول سکتے ہیں۔
زندگی بہت مختصر ہے، اور ہم سب اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آپ کے دیے ہوئے ایک نرم جملے، ایک ہلکی سی مسکراہٹ، یا ایک چھوٹی سی تعریف میں وہ طاقت ہو سکتی ہے جو کسی کی زندگی میں نئی امید جگا دے۔ یاد رکھیں، آپ کی ایک مسکراہٹ کسی کے لیے سورج کی پہلی کرن بن سکتی ہے—وہ کرن جو اندھیرے کمرے میں روشنی بھردے، اور دل کو پھر سے کھلنے پر مجبور کر دے۔
خوشیاں بانٹیں، مسکراہٹیں تقسیم کریں۔ کیونکہ گلاب صرف باغ کو نہیں، دلوں کو بھی مہکاتے ہیں—بس شرط یہ ہے کہ ہم انہیں مرجھانے نہ دیں۔
Comments
Post a Comment