کچھ نہیں بنا

ہم قربت سے ناواقف رہے،
اور کچھ نہیں بنا۔
ہم نے رنگین لباس پہنے،
خوشنما چہرہ اوڑھے،
روشنی میں چلتے رہے—
پھر بھی، کچھ نہیں بنا۔

ہونٹوں نے اپنے اوپر
پیاس کے پہرے بٹھا دیے۔
دریا ہمارے اتنا قریب بہا
کہ اس کی سرگوشیاں سن سکتے تھے،
مگر ہم اپنی پیاس کے صحرا میں مرتے رہے۔
پانی ہم تک نہ پہنچا،
یا شاید ہم نے ہاتھ ہی نہ بڑھایا—
کچھ نہیں بنا۔

ہم نے سوچا غم، محبت سکھا دے گا۔
ہم نے اپنے کمروں کو اندھیرا ہونے دیا،
آہوں کو ہم نشین بنایا۔
سال بیت گئے اس خاموشی میں،
اور جب خوشی لوٹ کر آئی،
وہ ہمارے در کی اجنبی ہو چکی تھی۔
کچھ نہیں بنا۔

اب ہم کہتے ہیں—
شاید عشق کا علاج قہقہوں میں ہے۔
اگر غم نے ہمیں نہیں بدلا،
تو ہنسی کی گونج شاید بدل دے۔
ہم مدتوں اداس رہے،
پھر بھی کچھ نہیں بنا۔

جس دن ہم نے ادب کے دائرے توڑے،
شہر نے ہمیں پہچان لیا۔
جب تک ہم سخن شناس رہے،
لفظوں کا وزن تولتے رہے،
ہم گمنام رہے—
کچھ نہیں بنا۔

اس شخص کے مزاج کی تلخی
کبھی کم نہ ہوئی۔
ہم نے گڑگڑا کر کہا،
اپنے آپ کو نرمی میں لپیٹا،
ہر معافی پیش کی جو زبان بنا سکتی تھی—
مگر اس کا دل سرد ہی رہا۔
ہم التجا میں محو رہے،
اور کچھ نہیں بنا۔

پھر ایک دن ہم نے محبت چھوڑنے میں
ایک عجیب سی راحت پائی۔
ہم اپنی ہار پر مسکرائے۔
چند دن،
یوں بھٹکتے رہے جیسے زمین
الٹی سمت گھومنے لگی ہو۔
دماغ نے اپنی سمت بھلا دی،
قدموں نے اپنی راہ—
پھر بھی کچھ نہیں بنا۔

یوں ہی یہ قصہ ہے:
وہ دن جب ہم نے رنگ پہنے،
اور وہ راتیں جب ہم نے سایے اوڑھے؛
وہ لمحے جب ہم دریا کنارے کھڑے تھے،
اور وہ صحرا جو دل میں آباد تھے؛
وہ ہنسی جو دیر سے پہنچی،
اور وہ درخواستیں جو پتھروں پر گریں—
ہم نے جتنے بھی جتن کیے،
جتنی بھی دعائیں مانگیں—
کچھ نہیں بنا،
کچھ بھی نہیں بنا۔

 

Comments

Popular posts from this blog